Friday, February 21, 2014

نہر فرات Nahr Furat

0 comments

http://issuu.com/razahasan/docs/nahr_furat
نہر فرات/ نہر علقمہ
جنوبی مشرقی ایشا کا سب سے بڑا دریا۔ دریائے فرات ہے جو تقریباً دو ہزار 780 کلومیٹر (ایک ہزار730میل) طویل ہے۔  جو  مخرج ترکی کے پہاڑ ہیں اور یہ دو شاخہ دریامغربی فرات اور مشرقی فرات سےمل کر بنتا ہے۔    یہ شام سے ہوتا ہوا عراق میں داخل ہوتا ہے اور شط العرب (خلیج فارس) میں گرتا ہے۔  مسٓیب سے کچھ فاصلہ پر اس دریا  سے ایک آبی گزرگا ہ نکلتی ہے جو کربلا  کو بھی سیراب کرتی ہے۔ اس آبی گذرگا ہ کو نہر فرات  اور نہر علقمہ بھی کہتے ہیں- یہ باقئدہ بنائی ھوئی نھر نہیں یہ سطح سمندر سے ایک میٹر اونچی ہے بصرہ کے انتظامی یونٹ (محفظات البصرہ) میں آتی ہے 
Click Here to download PDF file of Blood Shedding Tree at Karbala. 

Thursday, February 6, 2014

کربلا معلی میں غم حسین (علیہ السلام ) میں خون بہاتا درخت

0 comments

یہ درخت حرم امام کے پاس ہے۔ اس درخت سے10 محرم 61 ہجری کو سر اقدس امام حسین (علیہ السلام ) باندھا گیا تھا۔ آج تقریباً 1400 سال گذر جانے کے باوجود روز عاشورہ اس درخت سے تازہ خون ٹپکتا ہے۔ اور درخت کا تنا خون آلود ہو کر سرخ رنک اختیار کر لیتا ہے۔ یہ درخت 9 محرم سے سرخ ہونا شروع ہوتا ہے اورعاشور کے دن اس سے سرخ تازہ خون ٹپکنے لگتا ہے۔ سوتم امام کے بعد آہستہ آہستہ اپنا قدرتی رنک اختیار کر لیتا ہے۔ اس درخت کا بالائی حصہ جب بڑھ جاتا ہے تو اسے کاٹ دیتے ہیں۔ اس سے دوبارہ شاخین پھوٹ پڑتی ہیں۔ اور درخت ہرا بھرا ہو جاتا ہے۔ کیونکہ کربلا کی زمیں پر ایک شہر آباد ہو گیا ہے۔ اس ئئے یہ زیارت گاہیں تنگ کوچوں اور گلیوں میں آگئی ہیں۔ درخت ایک خاتوں کے گھر میں بھت چھوٹے سے صحن میں ہے۔ ان کی اجازت کے بغیر اسکی زیارت نہیں ہوسکتی۔ اس درخت کے خون کو وقتاً فوقتاً بھت لوگوں نے جمع کیا۔ اس وقت تو یہ خون سرخ ہوتا ہے۔ مگر کچھ عرصہ میں صرف سفید نشان رہ جاتا ہے۔اس درخت کے کٹے ہوئے ٹکڑے ساتھ ہی میں ایک خالی پلاٹ پر جمع ہیں اور ساتھ ہی کٹی ہوئی خشک ٹہنیاں بھی۔

Click Here to download PDF file of Nahr e Furat at Karbala. 

کربلا ہے یہی

0 comments
کربلا کو واقع ہوئے تقریباً 1400 سال کا طویل عرصہ گذر چکا ہے۔ مگر اس کے اثرات اتنے گہرے اور زخم اتنے تازہ ہیں کہ لگتا ہے جیسے کل کا واقع ہو۔ رنگ و مذہب سے بالاتر ہوکر دنیا میں جتنی بھی زبانیں لکھی اور پڑھی جاتی ہیں ان سب میں اس واقعہ کے بارے میں آگاہی ہے۔  دنیا کے ہر مکتبہ فکر اور ہر بڑے صاحب فکر نے اس پر اپنے تاثرات کا اظہار ضرور کیا ہے۔یہ وہ واقعہ جو دنیا بھر میں سب سے زیادہ لکھا اور پڑھا گیا ھے۔ اس پر صرف مسلم ہی نہیں دنیا کے اکثر مذاھب اور مختلف عقیدے کے لوگ ماتم کنان اور اشکبار ہیں۔
اس واقعہ کے اثرات صرف انسانی اذہان پر کندہ نہیں ہوئے بلکہ کائنات میں پھیلے ہوئے لا متناہی سلسلوں پر بھی اس کے اثرات نمایاں ہیں۔ اس واقع کے بعد آسمان برسوں سرخ رہا۔ صحرائے کربلا کے جس پتھر کو اٹھایا جاتا خون آلود نکلتا۔ اور آج بھی دنیا میں بہت سے مقامات ہیں جہاں روز عاشور تازہ اور سرخ خون تپکتا ہے۔ اور خاک کربلا سے بنی ہوئی بہت جگہ رکھی ھوئی تسبیحان روز عاشورہ سرخ اور خون آلود ہوجاتی ہین۔ ان میں عقاید کی قید نہیں۔ ایسی ہی ایک تسبیح فرھنگی محل لکھنؤ میں رکھی ہوئی ہے۔ ایک خلق خدا اس کی زیارت سے مستفید ھوتی ھے۔ فرہنگی محل اورنگ زیب جیسے بادشاہ کا تشکیل دیا ھوا مرکز ھے جہان درس نظامی کی تعلیم دی جاتی ہے۔