کربلا کو واقع ہوئے تقریباً 1400 سال کا طویل عرصہ گذر چکا ہے۔ مگر اس کے اثرات اتنے گہرے اور زخم اتنے تازہ ہیں کہ لگتا ہے جیسے کل کا واقع ہو۔ رنگ و مذہب سے بالاتر ہوکر دنیا میں جتنی بھی زبانیں لکھی اور پڑھی جاتی ہیں ان سب میں اس واقعہ کے بارے میں آگاہی ہے۔ دنیا کے ہر مکتبہ فکر اور ہر بڑے صاحب فکر نے اس پر اپنے تاثرات کا اظہار ضرور کیا ہے۔یہ وہ واقعہ جو دنیا بھر میں سب سے زیادہ لکھا اور پڑھا گیا ھے۔ اس پر صرف مسلم ہی نہیں دنیا کے اکثر مذاھب اور مختلف عقیدے کے لوگ ماتم کنان اور اشکبار ہیں۔
اس واقعہ کے اثرات صرف انسانی اذہان پر کندہ نہیں ہوئے بلکہ کائنات میں پھیلے ہوئے لا متناہی سلسلوں پر بھی اس کے اثرات نمایاں ہیں۔ اس واقع کے بعد آسمان برسوں سرخ رہا۔ صحرائے کربلا کے جس پتھر کو اٹھایا جاتا خون آلود نکلتا۔ اور آج بھی دنیا میں بہت سے مقامات ہیں جہاں روز عاشور تازہ اور سرخ خون تپکتا ہے۔ اور خاک کربلا سے بنی ہوئی بہت جگہ رکھی ھوئی تسبیحان روز عاشورہ سرخ اور خون آلود ہوجاتی ہین۔ ان میں عقاید کی قید نہیں۔ ایسی ہی ایک تسبیح فرھنگی محل لکھنؤ میں رکھی ہوئی ہے۔ ایک خلق خدا اس کی زیارت سے مستفید ھوتی ھے۔ فرہنگی محل اورنگ زیب جیسے بادشاہ کا تشکیل دیا ھوا مرکز ھے جہان درس نظامی کی تعلیم دی جاتی ہے۔