Thursday, March 27, 2014

مسجد جمکران، قم، (ایران)

0 comments
 مسجد مقدّس جمكران کی مختصر تاریخ
جمکران قم میں اس مسجد کو بنانے کا حکم حضرت امامزمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف نے دیا ہے اور وہ بھی بیداری کے عالم میں حکم تھا۔پرہیز گاروپارسا شخص جناب شیخ حسن بن مثلہ جمکرانی کہتے ہیں
سن393ہجری کے ماہ مبارک رمضان کی سترہویں (17)تاریخ اور سہ شنبہ(بدھ) کی رات تھی میں اپنے گھر میں سورہا تھا اور رات کا کچھ حصہ گذرچکا تھا کہ کچھ لوگ ہمارے گھر آئے ۔اورمجھے بیدار کیااور کہنے لگے اٹھو ۔چلو تمہیں حضرت صاحب الزمان صلوات اللہ علیہ نے بلایا ہے ان کی دعوت قبول کرو ۔
حسن بن مثلہ کا بیان ہےکہ میں تیزی سے اٹھ کر تیار ہوا اور پھر میں نے کہا مجھے کپڑے تبدیل کرنے کی اجازت دیں ۔اچانک دروازے کی طرف سے آواز آئی یہ تمہارا پیراہن نہیں ہے،چنانچہ اسے رکھ دیا۔اور پاجامہ اٹھایا توپھرآواز آئی وہ بھی تمہارا نہیں ہے ۔اپنا پاجامہ پہنو ،اسے پھینک دیا اور اپنا پاجامہ پہنا اور گھر کی کنجی کی تلاش میں تھا کہ آواز آئی کنجی کی ضرورت نہیں ہے دروازہ کھلا ہوا ہے ۔
 دروازہ پر پہنچا۔تو دیکھا بزرگوں کی ایک جماعت میری منتظرہے۔سلام و آداب بجا لایا ۔انہوں نے ہمیں جواب سلام دیا ۔اور خوش آمدید کہا۔ اور ہمیں اس جگہ لے گئے جہاں اس وقت مسجد جمکران موجود ہے۔ اچھی طرح دیکھا       ۔تو نظر آیا فضا نورانی ہے۔ ایک تخت لگا ہوا ہے ۔اور اس پر خوبصورت قالین بچھا ہے ۔اور خوبصورت تکیہ بھی لگا ہوا ہے ایک جوان جس کی عمر تیس سال ہو گی۔ا س تخت پر ٹیک لگائے بیٹھا ہوا ہے ۔ ایک ضعیف شخص ایک ہاتھ میں کتاب لئے ہوئے اس کے لئے پڑھ رہا ہے ۔اور ان کے اطراف میں ساٹھ سے زائد افرادموجود تھے ۔جو اس جگہ نماز اداد کر رہے تھے۔ جن میں سے بعض افراد نے سفید اوربعض نے سبز رنگ کا لباس پہناہواتھا،وہ ضعیف شخص حضرت خضر علیہ السلام تھے جنہوں نے مجھےبیٹھنے کا حکم دیا اور پھر حضرت امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف لائے۔مجھے میرے نام سے پکارا۔ اور فرمایا    جاؤ حسن مسلم کے پاس جاؤ ۔اور اس سے کہوکہ تم کئی سال سے اس زمین پر غاصبانہ قبضہ کئے ہوئے ہو۔ اور اس پر زراعت کرتے ہو ہم اسے خراب کردیں گے ،پانچ سال سے تم اس پرزراعت کر رہے ہو اور اس سال پھر زراعت کرنا چاہتے ہو اب تم کو یہ حق حاصل نہیں ہے ۔کہ اس زمین پر زراعت کرو۔ اور ابھی تک اس زمین سے جو فائدہ اٹھایا ہے اسے واپس کر و تاکہ اس جگہ مسجد بنائی جاسکے ۔
نیز اس سے کہہ دو۔یہ مقدس سرزمین ہے ۔ پروردگار عالم نے ساری زمینوں میں اسے منتخب کیا ہے اور اسے منزلت بخشی ہے اور تم نے اس زمین پر قبضہ کرلیا ہے اور اپنی زمینوں کے ساتھ ملا دیا ہے۔ پروردگار عالم نے اس کی سزا کے طور پر تمہارے دو جوان بیٹوں کو تم سے لے لیا لیکن تم متوجہ نہ ہوئے اوراگر اب بھی تمہیں جو حکم دیا ہے اس پرعمل نہیں کرو گے تو تمہارے لئے ایسا عذاب الٰہی آئے گا کہ تم خود بھی سمجھ نہ پاؤ گے ۔
جناب حسن مثلہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا۔ کہ اے میرے سید و سردار!۔اس پیغام کوپہنچانے کے لئے میں کوئی نشانی یاعلامت چاہتا ہوں۔ اس لئے کہ لوگ علامت اور دلیل کے بغیر میری بات نہیں سنیں گے ۔اور نہ ہی قبول کریں گے ۔
آنحضرت نے فرمایا
ہم اس جگہ ایک علامت چھوڑ جائیں گے۔تم جاؤ ۔اور ہمارا پیغام پہنچا دو۔اور سید ابو الحسن کے پاس بھی جاؤاور ان سے کہو۔اٹھواور اس زمین کی حدود معین کرو۔ اورگذشتہ سالوں کا منافع حسن بن مسلم سے لے کر مسجد تعمیر کرنے کے لئے لوگوں کو دے دو اور اگر پیسہ کم پڑے۔ تو باقی پیسہ رہق اردھال کی طرف زمین کے غلّہ سے لے لینا اور مسجد مکمل کرو ہم نے (رہق)کی آدھی ملکیت کو مسجد کے لئے وقف کردیا ہے ہر سال اس کی درآمد کو وہاں سے لایا جائے اور اس مسجدکی عمارت پر صرف کیا جائے۔اور لوگوں سے کہو۔اس جگہ شوق و اشتیاق کے ساتھ اکٹھے ہوں۔   اور اس کی تعظیم   کریں ۔ اور اسجگہ چار ررکعت نماز ادا کریں۔
جناب حسن بن مثلہ کہتے ہیں میں نے اپنے آپ سے کہا گویا یہ وہی جگہ ہے جسے آپ صاحب الزمان عجل اللہ فرجہ الشریف کی مسجد سمجھتے ہیں اور اس جوان کی طرف اشارہ کیا جو ٹیک لگائے بیٹھا تھا،پس اس جوان نے میری طرف اشارہ کر کے جانے کو کہا۔روئے زمین پر مسجد مقدس جمکران بہت ہی اہم معنوی مقام ہے۔ اوراس مقدس مسجد میں شرفیاب ہونے والوں کو اس کا پورا احترام کرنا چاہئے اور اس کی اہمیت اور معنوی مقام پر توجہ دینی چاہئے اور اس پر فیض مقام پر شرفیاب ہونے کے بعد اپنی روح و جان کو معنویت سے سر شار اور اپنے وجود کو نورانی کرنا چاہئے۔
اس جگہ ہم بعض ایسے نکات بیان کریں گے جو اس مقدس مقام پر شرفیاب ہونے والے افراد کے لئے جاننا ضروری ہیں ۔
 حضرت امام عصر عجل اللہ فرجہ الشریف نے بیداری کے عالم میں جناب حسن بن مثلہ جمکرانی کے توسط سے عظیم الشان امامزادہ سید ابو الحسن لرضاکو حکم دیا کہ وہ اس مقدس مسجد کی بنیاد رکھیں اور تمام منابع اور مصادر بعینیہ واقعہ بیداری کے عالم میں نقل ہوا ہے نہ کہ خواب میں ۔
حضرت بقیة اللہ ارواحنا فداہ کے مسجد جمکران کی تعمیر کے حکم سے سینکڑوں سال پہلے حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے اس واقعہ کی خبر دی تھی۔ایک روایت جسے صاحب(انوار المشعشعین)نے ذکر کیا ہے اس میں امیر کائنات،ولیِ عوالم وجود حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام نے اپنی پیشگوئی میں اس کی تفصیل بیان کی ہے۔اس روایت میں آنحضرت نے مسجد مقدس جمکران کی عظمت کے متعلق وہ راز بیان کیا ہے جسے سب لوگ سننے کی قوت نہیں رکھتے۔
امام عصرعجل اللہ فرجہ الشریف کے ظہور کے وقت کوفہ کے بعد مسجد مقدس جمکران آنحضرت کا دوسرا مرکز ہوگا۔ اور حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے اس روایت میں فرمایا ہے۔ظہور کے وقت امام عصر عجل اللہ فرجہ الشریف کے فوجیوں کا پرچم کوہ خضر(جو مسجد جمکران کے نزدیک واقع ہے)۔پر لہرائے گا ۔
بہت ہی اہم نکتہ جس پر توجہ رکھنی چاہئے ۔وہ یہ ہے کہ مسجد مقدس جمکران نہ صرف امام عصر عجل اللہ فرجہ الشریف کے ظہور کے وقت ان کی قوت کا مرکز اور روحانی و معنوی تبدیلی کا مقام نہیں ہے ۔بلکہ آنحضرت کی غیبت کے زمانہ میں بھی اس میں وہ خصوصیت موجود ہے۔آپ نے فرمایا کہ یہ نکتہ خود امام عصر عجل اللہ فرجہ الشریف کے فرمودات سے استفادہ کیا جاتا ہے
 جو بھی اس جگہ یہ نمازپڑھے ایسے ہی ہے جیسے اس نے خانۂ خدا میں نماز ادا کی ہو۔اورخانۂ خدا نہ صرف زمین کے جاذبہ کامرکز ہے جو روحی اور جسمی اعتبار سے انسان کے اوپر اثر انداز ہے اور یہ بیت معمور ،آسمانی و فضائی معنوی مقام کے مقابل ہے ۔اس بنا پر اگر انسان خانۂ خدا میں ہو اور اس میں نماز ادا کرے تو اس کے لئے ارتباط کی راہ کھل جاتی ہے اور اپنے آپ کو زمین و آسمان کے روحی و جسمی جاذبہ کے درمیان قرار دے دیتا ہے اور نا مرئی امواج انسان کے جسم و جان کے اندر مفید تبدیلیاں پیدا کرتی ہیں اور مسجد مقدس جمکران کی اصل جگہ بھی اسی طرح کی خاصیت رکھتی ہے ۔امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کا کلام بھی اس مطلب پر دلالت کرتا ہے کہ آپ نے فرمایا۔اس مقام پر نماز پڑہنا خانۂ خدا میں نماز پڑہنے کی طرح ہے۔
اسی طرح مسجد مقدس جمکران کے اصل مقام میں بہت سے غیر معلوم اسرار پوشیدہ ہیں جنہیں لوگ نہیں جانتے ۔اسی طرح حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں ۔
ما من عِلمٍ إلّا وأنا أفتحه ، وما من سرٍّ إلّا والقائم يختمه ۔ (بحار الأنوار ۔ 269/77)
کوئی بھی ایسا علم نہیں ہے مگر یہ کہ میں نے اسے برملا نہ کیا ہو اورکوئی بھی ایسا راز نہیں ہے مگر یہ کہ قائم اسے اختتام تک پہنچائیں گے۔مسجد مقدس جمکران کی تعمیر اس کی عظمت اور راز کے متعلق پہلے حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام نے خبر دی تھی اوراس  کے تمام اسرار حضرت حجت عجل اللہ فرجہ الشریف کے ظہور کے وقت لوگوں پر عیاں ہوں گے انشاء اللہ ۔ہم اس پرعظمت زمانہ کی یاد پھر سے تازہ کرتے ہیں اور پروردگارعالم سے دعا کرتے ہیں جتنی جلدی ممکن ہو اس نورانی دور کو پہنچا دے تاکہ عالم وجود کے اسرار فاش ہوجائیں اور تمام عالم لامحدود دانش اور عدل و انصاف بھرجائے ۔
جو افراد اس مقدس مقام پر مشرف ہوتے ہیں انہیں جاننا چاہئے کہ وہ بہت ہی مقدس مقام پر قدم رکھ رہے ہیں جس مقام پر امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی توجہ ہے اورآپ آنحضرت کی نگاہوں کے سامنے ہیں اس طرح کہ جیسے آنحضرت کے گھر میں داخل ہوئے ہوں اور آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔لہذا یہاں دیگر مقامات سے زیادہ حضور کے شرائط کی رعایت کریں ۔اور یہ جان لیں کہ آپ امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے سامنے ہیں اور وہ نہ صرف ہمارے اعمال ،افکار،تصورات اور خیالات سے آگاہ ہیں بلکہ ہمارے نفس و ضمیر سے بھی باخبر ہیں۔ اس لئے ہمیں ہر جگہ اپنی رفتار، گفتار اور افکار پر توجہ رکھنی چاہئے ،بالخصوص مسجد جمکران میں آنحضرت کے مہمان ہیں اور ادب اور حضور کا زیادہ خیال رکھیں ۔

اس مقدس مقام کے ادب کی ایک شرط یہ ہے کہ انسان مسجد مقدس جمکران شرفیاب ہونے کے اپنے مقصد کو مشخص کرے اور اپنے لئے بہترین ،عالی ترین اور اہم ترین ہدف کا انتخاب کرے اور خود کو چھوٹے مقاصد، مادی مسائل اور ذاتی فائدہ کا پابند نہ کرے اور یہ توجہ رکھے کہ اس زمانہ کا سب سے اہم مسئلہ حضرت امام عصر عجل اللہ فرجہ الشریف کے ظہور میں تعجیل ہے ۔ کیونکہ آنحضرت کے ظہور کے زمانے میں ہی تمام انسانوں کی مادی و معنوی مشکلات دور ہوں گی اور رنج و غم کو راہ نہ ملے گی تواس سے بہتر اورکیا ہوگا کہ اس مقدس مقام پر تمام انسانوں کی مشکلات اور مصائب سے نجات کے لئے دعا کریں اور مسجد مقدس جمکران جانے کا اپنا اصلی ہدف امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے لئے استغاثہ و دعا اور آنحضرت کے ظہور میں تعجیل قرار دیں۔
----------------------

Sunday, March 9, 2014

کاظمین (روضہ حضرت موسیٰ کاظم ؑ اور حضرت محمد تقیؑ)

0 comments

کاظمین (کاظمیہ) بغداد کے شمالی مضافات میں  بغداد  شہرسے 5 کلومیٹر کی دوری پر  واقع ہے۔   یہ زمین بہت قدیمی ،تاریخی ، تمدنی ، تہذیبی ثقافت اور روایات سے مالا مال ہے ۔ظہور اسلام کے بعد اس کے نئے خد و خال نکلے۔ اس علاقہ سے جناب امیرالمومنین حضرت علی ابن ابی طالب کو بھی نسبت ہے۔سن 37 ہجری میں جنگ نہروان سے واپسی پر ان  کے لشکر نے جس میں حضرت اما م حسن علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام بھی شامل تھے مسجد براثا پر پڑاؤ ڈالا تھا۔ جو یہاں سے 5 کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے۔ یہاں جنگ نہرواں کے شہدا دفن ہیں۔   
 سن 149؁ ہجری بمطابق 762؁ عیسوی میں بنی عباس کے خلیفہ ابو جعفر المنصور نے بغداد کی تزئیں و آرائش اور تعمیرات سے فراغت   حاصل کرنے کے بعد  خلیفہ ابو جعفر المنصور نے بغداد کے شمالی علاقہ کے  ایک حصہ کو اپنے خانداں کے قبرستان کے لئے الگ کیا   اور اسکا نام قریش کا قبرستان رکھا۔  سن 150؁ ہجری  میں  اس میں سب سےپہلے اس کے بیٹے جعفر کو دفن کیا گیا۔ بعد میں اس قبرستان کا نام بنی ہاشم پڑگیا۔ اور سن 183؁ہجری بمطابق 799؁ عیسوی میں یہاں  سب سے پہلے  حضرت امام موسیٰ کاظم ابن حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام  کا روضہ بنا۔  جس کی وجہ سے یہ علاقہ کاظمیہ کے نام سے مشہور ہوگیا۔ بعد میں  ان کے پوتے حضرت امام محمد تقی الجواد علیہ السلام ابن حضرت امام علی رضا  علیہ السلام  یہاں تشریف لائے ۔ انکا انتقال سن219 ؁ہجری بمطابق 834 ؁عیسوی میں ہوا  ۔اور انکا روضہ بھی جناب موسیٰ کاظم علیہ السلام کے ساتھ ہے۔ اور اب یہ کاظمین بھی کہلاتا ہے۔ (کاظمین کے ۲ کاظمون کی جمع ہے)  یہاں  روزانہ  اوسطاً ایک لاکھ افراد  زیارت سے شرفیاب ہوتے ہیں۔ ایام عزا ۔اورمحترم مہینوں میں بہت زیادہ گہما گہمی ہوتی ہے۔ اس میں کاظمیہ مسجد بھی ہے۔
 بغداد شہر 9 ضلعوں (انتظامی یونٹ) پر مشتمل ہے۔ جن میں کاظمیہ ایک ہے۔ یہاں 70 تاریخی مقامات ہیں۔ 14 عباسی خلفاء کے مقابر۔ اور بنی عباس کی مقبول تریں ملکہ زبیدہ جو کہ ہارون الرشید کی زوجہ تھیں اور انکے بیٹے امین بھی یہیں دفن ہیں۔ ملکہ زبیدہ کی کھودوائی نہر زبیدہ نہر بھی یہیں ہے۔  یہ  زمیں عراق  کی تہذیبی اور تمدنی  روایات اور فن خطاطی اور تعمیرات کی پاس دار ہے۔ لیکن کاظمین  کی کوئی مثال نہیں۔